حضرت آدم علیہ السلام کا تعارف

قران مجید میں بیان ہونے والا بہترین قصوں میں سے ایک قصہ بنی نوع انسان کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا

:ہے آپ اللہ تعالی کے پہلےنبی ہیں آپ کا قصہ قران مجید کی مختلف سورتوں میں متعدد جگہ پر بیان ہوا ہے

:آیئے پڑھتے ہیں حضرت آدم کی کہانی قرآن کی زبانی

وَ  اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِئُوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ

قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ

قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنۡۢبِئۡہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَنۡۢبَاَہُمۡ بِاَسۡمَآئِہِمۡ ۙ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ اِنِّیۡۤ  اَعۡلَمُ غَیۡبَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ وَ اَعۡلَمُ مَا تُبۡدُوۡنَ وَ مَا کُنۡتُمۡ تَکۡتُمُوۡنَ

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا  اِلَّاۤ  اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ  کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ

وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۪ وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ

فَاَزَلَّہُمَا الشَّیۡطٰنُ عَنۡہَا فَاَخۡرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیۡہِ ۪ وَ قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ    ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ  وَّ مَتَاعٌ اِلٰی  حِیۡنٍ

فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ  التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ

قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا  ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ  وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ

وَ الَّذِیۡنَ  کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ

:ترجمہ

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ؟ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔ اور اللہ تعالٰی نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ ۔ ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے ، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے ۔ اللہ تعالٰی نے ( حضرت ) آدم ( علیہ السلام ) سے فرمایا تم ان کے نام بتا دو ۔ جب انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں ( پہلے ہی ) نہ کہا تھا زمین اور آسمانوں کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے تھے ۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا ۔ اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا ۔ اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم !تم اور تمہاری بیوی جنّت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالم ہو جاؤ گے ۔لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا ہی دیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ !تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقتِ مقّرر تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے ۔ ۔ ( حضرت ) آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالٰی نے ان کی توبہ قبول فرمائی بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کر نے والا ہے ۔ ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں ۔ اور جو انکار کر کے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں ، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے ۔
(سورة البقرة39-30)

اللہ نے جب زمین میں اپنا نائب بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو فرشتوں نے سوال کیا کہ “کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے

اس سوال کا مقصد نہ تو اللہ پر اعتراض کرنا تھا نہ بنی آدم کے مرتبہ کا انکار تھا اور نہ انہیں انسانوں سے حسد تھا بلکہ اس سوال کا مقصد محض اس کی حکمت معلوم کرنا تھا

قتادہ رح نے فر مایا : فرشتوں کو معلوم تھا کہ یہ صورت حال پیش آنے والی ہے کیونکہ انہوں نے آدم سے پہلے زمین میں آباد ہونے والی مخلوقات یعنی جنات کے حالات دیکھے تھے۔اسی تجربے کے پیش نظر انہوں نے کہا کہ اور ہم تیری تسبیح حمد اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہمیشہ تیری عبادت کرتے ہیں ہم میں سے کوئی بھی تیری نافرمانی نہیں کرتا اگر انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ تیری عبادت کریں تو ہم موجود ہیں جو دن رات کسی کوتاہی کے بغیر تیری عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔اللہ تعالی نے فرشتوں کو جواب دیا جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے یعنی مجھے ان کی تخلیق کی وہ حکمت معلوم ہے جو تم نہیں جانتے ان میں نبی رسول صدیق شہداء اور نیک لوگ پیدا ہوں گے

 آدم علیہ السلام کی فرشتوں پر علمی برتری: اس کے بعد اللہ تعالی نے فرشتوں پر آدم علیہ السلام کی علمی فوقیت واضح فرمائی اور آدم علیہ السلام کو تمام نام سکھا دیے۔

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اس سے مراد ان چیزوں کے نام ہے جن سے لوگ ان چیزوں کو پہچانتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھاتے ہیں یعنی وہ چھوٹی بڑی اشیاء جن سے روز مرہ زندگی میں واسطہ پڑتا ہے مثلاً انسان حیوان زمین میدان سمندر پہاڑ اونٹ اور گدھا وغیرہ اللہ نے انہیں رکابی اور ہنڈیا کا نام بھی سکھایا ہر جانور ہر پرندے اور ہر چیز کا نام سکھایا پھر اللہ تعالی نے ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ اس کی تفسیر میں حضرت حسن بصری رحمت اللہ علیہ بیان کرتے ہیں جب اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں نے کہا اللہ تعالی جو مخلوق بھی پیدا فرمائے گا ہمارے پاس اس سے زیادہ علم ہوگا چنانچہ ان کا امتحان لیا گیا اور  اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا “اگر تم سچے ہو” فرشتوں نے کہا اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے تو ہی پورے علم و حکمت والا ہے مطلب یہ ہے کہ اے اللہ تو پاک ہے کوئی بھی تجھ سےعلم حاصل نہیں کر سکتا سوائے اس کے جو تم نے انہیں سکھایا۔

اللہ تعالی نے ادم علیہ السلام کو حکم دیا کہ تم ان کو ان چیزوں کے نام بتاؤ  جب آدم علیہ السلام نے ان کے نام بتائے تو اللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا “کیوں میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی سب پوشیدہ باتیں جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو پوشیدہ کرتے ہو سب مجھ کو معلوم ہے” ایک قول کے مطابق میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اس سے مراد فرشتوں کا یہ کہنا ہے کہ کیا تو  زمین میں وہ پیدا کرے گا جو اس میں فساد کرے اور “جو تم چھپاتے تھے”

اسسے مراد ابلیس کا اپنے دل میں تکبر کا جذبہ رکھنا ہے اور آدم علیہ السلام سے افضل ہونے کا خیال ہے۔

:احادیث میں مقام

حضرت موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نے آدم کو تمام زمین سے جمع کی گئی مٹھی بھر خاک سے پیدا فرمایا آدم علیہ السلام کی اولاد بھی طرح طرح کی مٹی کے مطابق پیدا ہوئی ان میں سفید فام بھی ہیں سرخ بھی اور سیاہ فام بھی اور ان کے درمیانی رنگوں کے بھی اسی طرح نیک اور بد ،نرم خو اور سخت طبیعت کے درمیاننی طبیعت والے

اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا تاکہ ابلیس آپ علیہ السلام سے  بڑائی کا دعوی نہ کرے چنانچہ اس نے آپ کو انسانی صورت میں پیدا فرمایاـ آپ جمعہ کے دن جس کی مقدار 40 سال تک تھی مٹی کے بنے ہوئے ایک جسم کی صورت میں پڑے رہےـ فرشتے پاس سے گزرتے تھے تو اس جسم کو دیکھ کر ڈر جاتے تھے ابلیس سب سے زیادہ خوفزدہ تھا گزرتے وقت اسے ضرب لگاتا تو جسم سے اس طرح آواز آتی  جس طرح مٹی کے بنے ہوئے برتن سے کوئی چیز ٹکرائے تو آواز آتی ہے اس لیے جب وہ کہتا تھا ٹھیکری کی طرح بجنے والی مٹی ہے تو کہتا تجھے کسی خاص مقصد سے پیدا کیا گیا ہے وہ اس خاکی بدن میں منہ کی طرف سے داخل ہوا اور دوسری طرف سے نکل گیا اور اس نے فرشتوں سے کہا اس سے مت ڈرو تمہارا رب صمد ہے لیکن یہ تو کھوکھلا ہے اگر مجھے اس پر قابو دیا گیا تو اسے ضرور تباہ کر دوں گا

جب وہ وقت آیا جب اللہ تعالی نے اس جسم میں روح ڈالنے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے ارشاد فرمایا جب میں اس میں روح ڈال دوں تو اسے سجدہ کرنا جب روح ڈال دی گئی تو وہ سر کی طرف سے داخل ہوئی تبھی آدم علیہ السلام کو چھینک آگئی فرشتوں نے کہا کہیے الحمدللہ سب تعریف اللہ کے لیے ہیں انہوں نے فرمایا الحمدللہ نے فرمایا تیرے رب نے تجھ پر رحمت فرمائی جب روح آنکھوں میں داخل ہوئی تو آپ علیہ السلام کو جنت کے پھل نظر آئے جب روح پیٹ میں داخل ہوئی تو آپ کو کھانے کی خواہش پیدا ہوئی آپ جلدی سے جنت کے پھلوں کی طرف لپکے  جب کہ روح ابھی آپ کی ٹانگوں میں داخل نہیں ہوئی تھی اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا انسان تو جلد بازی کا بنا ہوا ہے یعنی جلد بازی اس کی فطرت میں شامل ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کا قد 60 ہاتھ تھا پھر فرمایا جا کر ان فرشتوں کی جماعت کو سلام کہیے اور سنیے کہ وہ کیا جواب  دیتے ہیں تیرا اور تیری اولاد کا یہی سلام کا طریقہ ہوگا آدم علیہ السلام نے کہا السلام علیکم فرشتوں نے کہا السلام علیکم ورحمت اللہ یعنی جواب میں رحمت اللہ  کا اضافہ ہو گیا جنت میں جو بھی داخل ہوگا وہ  آدم علیہ السلام کی صورت پر یعنی 60 ہاتھ قد کا ہوگا اس کے بعد اب تک مخلوق کے قد کاٹھ میں کمی ہوتی آئی ہے

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا ہے اس دن آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اس دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا اس دن انہیں اس سے نکالا گیا اور اسی دن قیامت قائم ہوگی

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام جمعہ کے دن آخری گھڑی میں پیدا کیے گئے۔

اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ  کُنۡ فَیَکُوۡنُ

عیسی علیہ السلام کا حال اللہ کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے پہلے مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ  انسان ہو جا تو وہ انسان ہو گئے۔

                                                                                                                                                     (آل عمران: 59)

اس طرح اللہ تعالی نے سورۃ حجر میں آدم علیہ السلام اور جنوں کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا ہے ابلیس کے سجدے سے انکار کے بعد اس پر لعنت کی ہے ابلیس نے لعنتی قرار پانے پر بنی آدم سےدشمنی کا اعلان کر دیا اور اللہ تعالی سے تاکہ قیامت اس کی مہلت طلب کی

اسی واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۶

وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ ﴿۲۷

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ  اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ  حَمَاٍ  مَّسۡنُوۡنٍ ﴿۲۸

فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ  وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ  مِنۡ  رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا  لَہٗ   سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹

فَسَجَدَ  الۡمَلٰٓئِکَۃُ  کُلُّہُمۡ  اَجۡمَعُوۡنَ ﴿ۙ۳۰

اِلَّاۤ  اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿۳۱

قَالَ یٰۤـاِبۡلِیۡسُ مَا لَکَ اَلَّا تَکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ ﴿۳۲

قَالَ لَمۡ  اَکُنۡ  لِّاَسۡجُدَ  لِبَشَرٍ  خَلَقۡتَہٗ مِنۡ  صَلۡصَالٍ  مِّنۡ  حَمَاٍ  مَّسۡنُوۡنٍ ﴿۳۳

قَالَ  فَاخۡرُجۡ  مِنۡہَا فَاِنَّکَ  رَجِیۡمٌ ﴿ۙ۳۴

وَّ اِنَّ عَلَیۡکَ اللَّعۡنَۃَ اِلٰی یَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿۳۵

قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ  اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۳۶

قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ ﴿ۙ۳۷

اِلٰی یَوۡمِ  الۡوَقۡتِ  الۡمَعۡلُوۡمِ ﴿۳۸

قَالَ رَبِّ بِمَاۤ  اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ  لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ  وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ  اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۳۹

اِلَّا عِبَادَکَ  مِنۡہُمُ  الۡمُخۡلَصِیۡنَ ﴿۴۰

قَالَ  ہٰذَا  صِرَاطٌ  عَلَیَّ  مُسۡتَقِیۡمٌ ﴿۴۱

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ  اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ  مِنَ  الۡغٰوِیۡنَ ﴿۴۲

وَ  اِنَّ جَہَنَّمَ  لَمَوۡعِدُہُمۡ  اَجۡمَعِیۡنَ﴿۴۳ ۙ

لَہَا سَبۡعَۃُ  اَبۡوَابٍ ؕ لِکُلِّ بَابٍ مِّنۡہُمۡ جُزۡءٌ  مَّقۡسُوۡمٌ  ﴿۴۴

:ترجمہ            

یقیناً ہم نے  انسان  کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی  مٹی  سے  پیدا  فرمایا ہے ۔ اوراس سے  پہلے  جنات کو ہم نے لو والی  آگ  سے  پیدا  کیا ۔اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک  انسان  کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی  مٹی  سے  پیدا  کرنے والا ہوں ۔تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح  پھونک  دوں تو تم سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑنا ۔چناچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کر لیا ۔مگر ابلیس  نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے  صاف   انکار  کر دیا ۔۔ ( اللہ تعالٰی نے ) فرمایا اے ابلیس تجھے کیا  ہوا  کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس  انسان  کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی  مٹی  سے  پیدا  کیا ہے۔فرمایا اب تو بہشت سے نکل جا کیونکہ تو مردود ہے ۔اورتجھ پر میری پھٹکار ہے  قیامت  کے  دن  تک ۔کہنے لگا کہ اے میرے رب! مجھے اس  دن  تک کی ڈھیل دے کہ لوگ دوبارہ اٹھا کھڑے کیئے جائیں ۔فرمایا کہ  اچھا  تو ان میں سے ہے جنہیں  مہلت  ملی ہے ۔روز  مقرر  کے  وقت  تک کی ۔ ( شیطان نے ) کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی  قسم  ہے کہ میں بھی  زمین  میں ان کے لئے معاصی کو  مزین  کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی ۔سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کرلئے گئے ہیں ۔ارشاد  ہوا  کہ ہاں یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے۔میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں لیکن ہاں جو گمراہ لوگ تیری پیروی کریں ۔یقیناً ان سب کے وعدے کی  جگہ  جہنم ہے ۔جس کے سات دروازے ہیں ۔ ہر دروازے کے لئے ان کا ایک  حصہ  بٹا  ہوا  ہے ۔

                                                                                                                             (الحجر:26-44)

                  

:فرشتوں کو سجدے کا حکم

اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ  اِنِّیۡ خَالِقٌۢ  بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿۷۱

فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا  لَہٗ   سٰجِدِیۡنَ ﴿۷۲

فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ  کُلُّہُمۡ  اَجۡمَعُوۡنَ ﴿ۙ۷۳

اِلَّاۤ  اِبۡلِیۡسَ ؕ اِسۡتَکۡبَرَ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۷۴

قَالَ یٰۤاِبۡلِیۡسُ مَا مَنَعَکَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ اَسۡتَکۡبَرۡتَ اَمۡ کُنۡتَ مِنَ  الۡعَالِیۡنَ ﴿۷۵

قَالَ  اَنَا خَیۡرٌ  مِّنۡہُ ؕ خَلَقۡتَنِیۡ  مِنۡ نَّارٍ وَّ  خَلَقۡتَہٗ  مِنۡ  طِیۡنٍ ﴿۷۶

:ترجمہ

جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں  مٹی  سے  انسان  کو  پیدا  کرنے والا ہوں ۔ سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح  پھونک  دوں ، تو تم سب اس کے  سامنے  سجدے میں گر پڑنا ۔ چناچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ۔ مگر ابلیس نے ( نہ کیا ) ، اس نے  تکبر  کیا اور وہ تھا کافروں میں سے ۔ ۔ ( اللہ تعالٰی نے ) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے  پیدا  کیا کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے ۔ اس نے  جواب  دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے  آگ  سے بنایا ، اور اسے  مٹی  سے بنایا ہے ۔

                                                                                                                                                     (ص:71-76)

حضرت امام حسن بصری رحمت اللہ علیہ کا ارشاد ہے” ابلیس نے قیاس کیا اور سب سے پہلے اسی نے قیاس کیا

 امام محمد بن سیرین رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں” ابلیس نے قیاس کیا اور سورج چاند کی پوجا بھی قیاس ہی سے شروع ہوئی

اس کا مطلب یہ ہے کہ  شیطان نے اپنا موازنہ آدم علیہ السلام کے ساتھ کیا اپنے آپ پر نظر ڈالی تو اسے اپنی ذات آدم علیہ السلام سے افضل معلوم ہوئی اس لیے وہ انہیں سجدہ کرنے سے رک گیا حالانکہ تمام فرشتوں کے ساتھ ساتھ اسے بھی سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا ،یہ کہنا تو ویسے بھی غلط ہے کیونکہ مٹی آگ سے بہتر اور مٹی میں پختگی تحمل اور بننے پھولنے کی صفات پائی جاتی ہے جبکہ آگ میں جذباتیت ہلکا پن جلد بازی اور جلانے کی خصوصیات ہیں

حضرت آدم علیہ السلام کو یہ شرف بھی حاصل تھا کہ انہیں اللہ تعالی نے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور ان میں اپنی روح پھونکی تھی اسی لیے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ انہیں سجدہ کرے لیکن ابلیس نے اپنے آپ کو حضرت آدم علیہ السلام سے بہتر سمجھتے ہوئے سجدے سے انکار کر دیا ابلیس اس لیے لعنت کا مستحق ہوا کہ اس کے طرز عمل میں آدم علیہ السلام کی تحقیر تھی وہ آدم علیہ السلام کو کم تر اور اپنے آپ کو اعلی سمجھتا تھا حکم الہی کی مخالفت ہے جبکہ آدم علیہ السلام کا نام لے کر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا پھر اس نے جو عذر پیش کیا وہ بھی بالکل بیکار تھا

اس کا کہنا تھا کہ کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے جبکہ میں تو آگ سے بنا ہوا ہوں۔

:آدم علیہ السلام کو سجدہ

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ  اسۡجُدُوۡا  لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ قَالَ ءَاَسۡجُدُ لِمَنۡ  خَلَقۡتَ  طِیۡنًا ﴿ۚ۶۱

قَالَ  اَرَءَیۡتَکَ ہٰذَا  الَّذِیۡ  کَرَّمۡتَ عَلَیَّ ۫ لَئِنۡ اَخَّرۡتَنِ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ لَاَحۡتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗۤ  اِلَّا  قَلِیۡلًا ﴿۶۲

قَالَ اذۡہَبۡ فَمَنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ فَاِنَّ جَہَنَّمَ  جَزَآؤُکُمۡ  جَزَآءً  مَّوۡفُوۡرًا ﴿۶۳

وَ اسۡتَفۡزِزۡ مَنِ اسۡتَطَعۡتَ مِنۡہُمۡ بِصَوۡتِکَ وَ اَجۡلِبۡ عَلَیۡہِمۡ بِخَیۡلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکۡہُمۡ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ وَ عِدۡہُمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ   اِلَّا  غُرُوۡرًا ﴿۶۴

اِنَّ عِبَادِیۡ  لَیۡسَ  لَکَ  عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ ؕ وَ کَفٰی  بِرَبِّکَ  وَکِیۡلًا  ﴿۶۵

:ترجمہ                                               

جب ہم نے فرشتوں کو  حکم  دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے  مٹی  سے  پیدا  کیا ہے ۔ اچھا  دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے لیکن اگر مجھے بھی  قیامت  تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی  اولاد  کو بجزائےبہت تھوڑے لوگوں کے ، اپنے بس میں کرلوں گا ۔ ارشاد  ہوا  کہ جا ان میں سے جو بھی تیرا تابعدار ہو جائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا  بدلہ  ہے ۔ ان میں سے تو جسے بھی اپنی  آواز  سے بہکا سکے گا بہکا لے اور ان پر اپنے  سوار  اور پیادے چڑھالا اور ان کے  مال  اور  اولاد  میں سے اپنا بھی ساجھا لگا اور انہیں ( جھوٹے ) وعدے دے لے ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں ۔ میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی  قابو  اور بس نہیں تیرا رب کار سازی کرنے والا  کافی  ہے ۔

                                                                                                                                                     (بنی اسرائیل:61-65)

شیطان جان بوجھ کر اللہ کی اطاعت سے نکل گیا اور اس نے تکبر کی بنا پر اللہ کے حکم کی تعمیل سے انکار کیا یہ اس کی ناپاکی جس نے اسے دھوکہ دیا کیونکہ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں جن آگ کے شعلے سے پیدا کیے گئے اور آدم علیہ السلام اس چیز یعنی مٹی سے پیدا کیے گئے جو تمہیں بتا دی گئی ہے۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا “ابلیس ایک لحظہ بھر بھی فرشتہ نہیں رہا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ابلیس زمین کے ان فرشتوں میں سے تھا جنہیں جن کہا جاتا تھا اور علم و عبادت میں ان سب سے بڑھ کر تھا اور اس کا نام عزازیل تھا۔

:ابلیس کا اعلان جنگ                               

قَالَ فَبِمَاۤ  اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ  لَہُمۡ صِرَاطَکَ  الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿ۙ۱۶

ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ  وَ عَنۡ اَیۡمَانِہِمۡ وَ عَنۡ شَمَآئِلِہِمۡ ؕ وَ لَا  تَجِدُ اَکۡثَرَہُمۡ شٰکِرِیۡنَ ﴿۱۷

:ترجمہ

اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں  قسم  کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا ۔ پھر ان پر  حملہ  کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے  پیچھے  سے بھی اور ان کی داہنی  جانب  سے بھی اور ان کی بائیں  جانب  سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے۔

                                                                                                           (الاعراف:16-17)

یعنی اس نے اللہ تعالی سے کہا کہ چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے اس لیے میں بھی انہیں گمراہ کرنے کے لیے ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھوں گا اور انہیں گمراہ کرنے کے لیے ہر طرف سے آؤں گا۔ خوش نصیب وہی ہے جو اس کی مخالفت کرے اور سراسر بد نصیب وہ ہے جو اس کی بات مان لے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان انسان کے ہر راستے پر گمراہ کرنے کے لیے بیٹھا ہوا ہے پھر اللہ تعالی نے ابلیس کو جلا وطن کر دیا ہے جب ابلیس نے حکم الہی کی تعمیل سے انکار کیا تو اللہ تعالی نے اسے قیامت تک لعنتی اور مردود قرار دے کر اسے جنت سے نکال دیا اور اس کا مقام و مرتبہ بھی اس سے چھین لیا اللہ تعالی نے ابلیس سے کہا “اس جنت سے اتر جاؤ “اور “اس سے نکل جاؤ” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آسمان پر تھا وہاں سے اسے نیچے اتر جانے کا حکم دیا گیا اور اسےاپنے مقام و مرتبہ سے بھی محروم کر دیا گیا جو اسے عبادت کی وجہ سے اور اطاعت و عبادت میں فرشتوں سے مشابہ ہو جانے کی وجہ سے حاصل ہوا تھا اس کے تکبر حسد و نافرمانی کی وجہ سے اس سے یہ مرتبہ طلب کر کے اسے ذلت و لعنت کے ساتھ زمین پر پھینک دیا گیا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب آدم کا بیٹا سجدہ کی آیت تلاوت کرتا ہے تو یہ سجدہ کرتا ہے تو شیطان ایک طرف ہو کر رونے لگتا ہے اور کہتا ہے ہائے افسوس ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو اس نے سجدہ کر لیا اس لیے اسے جنت ملے گی مجھے سجدہ کرنے کا حکم ملا تھا میں نے نافرمانی کی تو مجھے جہنم ملے گی۔

:حضرت آدم اور جنت کا قصہ

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ  رَقِیۡبًا ﴿۱

اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو ، جس نے تمہیں ایک جان سے  پیدا  کیا اسی سے اس کی  بیوی  کو  پیدا  کر کے ان دونوں سے بہت سے  مرد  اور عورتیں پھیلا دیں ، اس اللہ سے ڈرو جس کے  نام  پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالٰی تم پر  نگہبان  ہے ۔

                                                                                                                                                     (النساء:1)

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا لِیَسۡکُنَ اِلَیۡہَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰہَا حَمَلَتۡ حَمۡلًا خَفِیۡفًا فَمَرَّتۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّاۤ  اَثۡقَلَتۡ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّہُمَا لَئِنۡ اٰتَیۡتَنَا صَالِحًا  لَّنَکُوۡنَنَّ  مِنَ  الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۸۹

وہ اللہ ہی ہے  جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے پھر جب مرد نے عورت کو ڈھانک لیا تو اسے سیک خفیف سا حمل رہ گیا جسے لیے لیے وہ چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ بوجھل ہو گئی تو دونوں نے مل کر اللہ،اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا تو ہم تیرے شکرگزار ہوں گے۔

                                                                                                                                                     (الأعراف:189)

محمد بن اسحاق رحمت اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سے ذکر کیا کہ حوا علیہ السلام کو آدم علیہ السلام کی بائیں طرف کی چھوٹی پسلی سے پیدا کیا گیا جبکہ آپ علیہ السلام سو رہے تھے اور پسلی کی جگہ کو گوشت سے پر کر دیا گیا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا عورتوں سے حسن سلوک کی نصیحت قبول کرو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں بس سب سے ٹیڑھی پسلی وہ ہے جو سب سے اوپر والی ہے اگر تو اس پسلی کو سیدھا کرنا چاہے گا تو اسے توڑ بیٹھے گا اور اگر اسے چھوڑ دے گا تو وہ ٹھیڑھی رہے گی اس لیے عورتوں سے حسن سلوک کی نصیحت قبول کرو یعنی میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ عورتوں سے نرمی اور حسن سلوک کا برتاؤ کرو۔

:جنت میں زندگی                  

پھر اللہ تعالی نے فرمایا

 تو اور تیری بیوی جنت میں رہو”

ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حوا علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کے جنت میں داخل ہونے سے پہلے تخلیق کیا جا چکا تھا لیکن امام سعدی رحمت اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس حضرت عبداللہ بن مسعود اور دیگر صحابہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا ابلیس کو جنت سے نکال دیا گیا اور آدم علیہ السلام کو وہاں آباد کر دیا گیا آپ جنت میں اکیلے گھومتے پھرتے تھے ان کا کوئی ساتھی نہ تھا جس سے انہیں تسکین حاصل ہوتی ایک بار وہ سوئے جب جاگے تو دیکھا کہ ان کے سر کے پاس ایک خاتون بیٹھی ہیں انہیں اللہ نے آپ کی پسلی سے پیدا فرمایا تھا آپ علیہ السلام نے فرمایا تو کون ہے انہوں نے کہا عورت ہوں فرمایا تجھے کس لیے پیدا کیا گیا ہے کہا تاکہ آپ مجھ سے تسکین حاصل کریں فرشتوں نے جو آدم علیہ السلام کے علم کی وسعت معلوم کرنا چاہتے تھے کہا آدم اس کا نام کیا ہے انہوں نے فرمایا حوا انہوں نے کہا اس کا نام حوا کیوں ہے فرمایا کیونکہ وہ ایک زندہ وجود سے پیدا کی گئی ہے۔اللہ تعالی نے حضرت حوا کو پیدا کرنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے کہا تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہو۔

وَ قُلۡنَا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنۡہَا رَغَدًا حَیۡثُ شِئۡتُمَا ۪ وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۳۵

اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم !تم اور تمہاری  بیوی  جنّت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو با فراغت کھاؤ پیو لیکن اس  درخت  کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالم ہو جاؤ گے ۔

جنت میں جس درخت سے روکا گیا تھا اس کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا اس درخت کے قریب نہ جانا یہ درخت کون سا تھا اس کے بارے میں مفسرین اپنی اپنی مختلف رائے پیش کرتے ہیں بعض علماء کے نزدیک وہ انگور کی بیل تھی لیکن یہود کی رائے یہ ہے کہ وہ گندم تھی

وہب بن منبہ رحمت اللہ علیہ نے فرمایا اس کا دانہ مکھن سے نرم اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا امام ابو مالک رحمۃ اللہ علیہ کی رائے میں وہ کھجور کا درخت تھا مجاہد رحمت اللہ علیہ کی رائی ہے کہ وہ انجیر کا درخت تھا ابو العالیہ رحمت اللہ علیہ نے فرمایا یہ کوئی ایسا درخت تھا کہ اس کو کھانے سے قضائے حاجت کی ضرورت پیش آتی تھی اور جنت کی زمین میں قضائے خاصہ مناسب نہیں۔

یہ سب اختلاف معمولی ہے اللہ تعالی نے اس درخت کا تعین نہیں فرمایا اگر اس کے تعین میں کوئی حکمت ہوتی تو اللہ تعالی متعین طور پر بیان فرما دیتا اور ہمیں بتا دیتا کہ یہ کون سا درخت تھا ۔

اس مسئلہ میں بھی اختلاف ہے کہ آدم علیہ السلام کو جس جنت میں ٹھہرایا گیا تھا کیا وہ آسمان والی جنت ہے یا وہ زمین میں کوئی باغ تھا اکثر کی رائے یہ ہے کہ یہ جنت آسمان میں ہے اور اس کا نام جنت الماوی یعنی جنت الخالد ہے قرآن مجید کی ایات اور احادیث نبوی کے الفاظ کا ظاہری مفہوم اس کی تائید کرتا ہے جیسے ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالی لوگوں کو جمع فرمائے گا جب جنت مومنوں کے قریب لائی جائے گی تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے وو آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے ابا جان ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوا دیجیے وہ فرمائیں گے تمہیں جنت سے تمہارے والد کی غلطی ہی نے نکلوایا تھا اس حدیث میں بظاہر ایک قوی دلیل ہے کہ  وہ جنت الماوی تھی جس سے آدم علیہ السلام کو نکالا گیا۔

آدم و حوا  کوشیطان کا دھوکہ

شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام سے جو دشمنی پال رکھی تھی اس کے بدلے میں اس نے انہیں بھی جنت سے نکلوا دیا اس نے بہت مکر کیا اور اسنے ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور اپنے رب کی نافرمانی پر امادہ کیا جس کی سزا میں آدم علیہ السلام کو جنت اور اس کی نعمتوں سے محروم اور دکھوں کی جگہ زمین میں آباد ہونا پڑا۔ یعنی نعمت راحت اور سکون سے نکال کر محنت مشقت اور مصیبت والی دنیا میں پہنچا دیا وہ اس طرح کے اس نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا اور  اس کے اچھا ہونے کا احساس دلایا جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

فَوَسۡوَسَ لَہُمَا الشَّیۡطٰنُ لِیُبۡدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنۡہُمَا مِنۡ سَوۡاٰتِہِمَا وَ قَالَ مَا نَہٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنۡ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ  اِلَّاۤ اَنۡ  تَکُوۡنَا مَلَکَیۡنِ اَوۡ تَکُوۡنَا مِنَ  الۡخٰلِدِیۡنَ ﴿۲۰

پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بے  پردہ  کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس  درخت  سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہو جاؤ یا کہیں  ہمیشہ   زندہ  رہنے والوں میں سے ہو جاؤ ۔

یعنی کہ اس نے کہا اللہ تعالی نے تمہیں اس سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ رہنے والے نہ بن جاؤ یعنی اگر تم اسے کھا لو گے تو ایسے بن جاؤ گے اور انہیں یقین دلانے کے لیے قسم کھائی جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔

وَ قَاسَمَہُمَاۤ  اِنِّیۡ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿ۙ۲۱

اور ان دونوں کے رو برو  قسم  کھا لی کہ  یقین  جانیے میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔

                                                                                                                                                     (الاعراف:20-21)

فَوَسۡوَسَ اِلَیۡہِ الشَّیۡطٰنُ قَالَ یٰۤـاٰدَمُ ہَلۡ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الۡخُلۡدِ وَ مُلۡکٍ لَّا یَبۡلٰی ﴿۱۲۰

لیکن شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا کہنے لگا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا  درخت  اور بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو ۔

                                                                                                                                                     (طہ:120)

یہ جو اس نے کہا کہ میں آپ کو ایک ایسا درخت بتاؤں گا جس کو کھانے کے نتیجے میں آپ ان موجودہ نعمتوں میں ہمیشہ رہنے کے مستحق ہو جائیں گے اور آپ کو ایسی حکومت حاصل ہو جائے گی جو کبھی تباہ ہوگی نہ ختم ہوگی یہ بات صرف دھوکہ تھی فریب تھی اور جھوٹ پر مبنی تھی ممکن ہے کہ یہ وہی درخت ہو جس کا ذکر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار 100 سال تک چلتا رہے تو اسے طے نہ کر سکے۔

فَاَکَلَا مِنۡہَا فَبَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ۫ وَ عَصٰۤی  اٰدَمُ   رَبَّہٗ  فَغَوٰی  ﴿۱۲۱                                                             

چناچہ ان دونوں نے اس  درخت  سے کچھ کھا لیا پس ان کے ستر کھل گئے اور بہشت کے پتے اپنے اوپر ٹانکنے لگے ۔ آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب کی  نافرمانی  کی پس بہک گیا ۔

                                                                                                                                                     (طه:121)

اس ممنوعہ درخت کا پھل آدم علیہ السلام سے پہلے حضرت حوا علیہ السلام نے کھایا اور انہیں بھی اس کے کھانے کی ترغیب دی ممکن ہے۔

 صحیح بخاری کی اس حدیث میں اسی طرف اشارہ ہےنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت کبھی خراب نہ ہوتا اگر حوا نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے خاوند کی خیانت نہ کرتی۔

اہل کتاب کے پاس موجودہ تورات میں ہے کہ جس نے حضرت حوا علیہ السلام کو اس درخت کا پھل کھانے کی ترغیب دی وہ سانپ تھا وہ بہت خوبصورت اور بہت بڑا تھا حوا علیہ السلام نے سانپ کے کہنے پر پھل کھا لیا اور آدم علیہ السلام کو بھی کھلایا اس میں شیطان کا ذکر نہیں اس وقت ان کی آنکھیں کھل گئی اور انہیں معلوم ہو گیا کہ وہ ننگے ہیں چنانچہ انہوں نے انجیر کے پتے جوڑ کر تے بند بنائے اس میں یہ بیان ہے کہ وہ دونوں بے لباس تھے

وہب بن منبہ رحمت اللہ علیہ نے بھی ایسے ہی فرمایا ہے کہ ان کا لباس نور تھا کہ اس نے پردہ کے عضا کو چھپایا ہوا تھا موجودہ تورات میں ذکر کردہ یہ بات غلط ہے جس میں تحریف ہوئی ہے اور ترجمہ کرنے میں بھی غلطی ہوئی ہے کسی کلام کو ایک زبان سے دوسری زبان منتقل کرنا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہوتا خصوصا جو شخص دوسری زبان سے اچھی طرح واقف نہ ہو اور اپنی زبان میں لکھی کتاب کو بھی مکمل طور پر نہ سمجھ سکتا ہو اسی وجہ سے تورات کے ترجمہ میں بہت سی تفسیر اور معنوی بھی غلطیاں واقع ہو گئی یہ قرآن عظیم نے واضح کیا ہے کہ ان کے جسم پر لباس موجود تھا ارشاد ربانی ہے۔

یَنۡزِعُ عَنۡہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوۡاٰتِہِمَا ؕ

ان کا لباس بھی اتروا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے ۔

                                                                                                                                                     (الأعراف:27)

:حضرت آدم کا دنیا میں بھیجنا

وَ لَقَدۡ عَہِدۡنَاۤ  اِلٰۤی اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِیَ  وَ  لَمۡ  نَجِدۡ  لَہٗ  عَزۡمًا ﴿۱۱۵

وَ اِذۡ  قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا   اِلَّاۤ   اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی ﴿۱۱۶

فَقُلۡنَا یٰۤـاٰدَمُ  اِنَّ  ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَ لِزَوۡجِکَ فَلَا یُخۡرِجَنَّکُمَا مِنَ الۡجَنَّۃِ فَتَشۡقٰی  ﴿۱۱۷

اِنَّ  لَکَ  اَلَّا  تَجُوۡعَ  فِیۡہَا وَ لَا  تَعۡرٰی ﴿۱۱۸﴾ۙ

وَ اَنَّکَ لَا  تَظۡمَؤُا فِیۡہَا وَ لَا تَضۡحٰی ﴿۱۱۹

فَوَسۡوَسَ اِلَیۡہِ الشَّیۡطٰنُ قَالَ یٰۤـاٰدَمُ ہَلۡ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الۡخُلۡدِ وَ مُلۡکٍ لَّا یَبۡلٰی ﴿۱۲۰

فَاَکَلَا مِنۡہَا فَبَدَتۡ لَہُمَا سَوۡاٰتُہُمَا وَ طَفِقَا یَخۡصِفٰنِ عَلَیۡہِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَنَّۃِ ۫ وَ عَصٰۤی  اٰدَمُ   رَبَّہٗ  فَغَوٰی  ﴿۱۲۱﴾۪

ثُمَّ  اجۡتَبٰہُ رَبُّہٗ  فَتَابَ عَلَیۡہِ  وَ  ہَدٰی ﴿۱۲۲

قَالَ اہۡبِطَا مِنۡہَا جَمِیۡعًۢا بَعۡضُکُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی   ۬ ۙ فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ  فَلَا  یَضِلُّ  وَ لَا  یَشۡقٰی  ﴿۱۲۳

وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا وَّ نَحۡشُرُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ  اَعۡمٰی ﴿۱۲۴

قَالَ رَبِّ  لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ  اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ  بَصِیۡرًا ﴿۱۲۵

قَالَ  کَذٰلِکَ اَتَتۡکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیۡتَہَا ۚ  وَکَذٰلِکَ  الۡیَوۡمَ  تُنۡسٰی ﴿۱۲۶

:ترجمہ

ہم نے آدم کو  پہلے  ہی تاکیدی  حکم  دے دیا تھا لیکن وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں کوئی عزم نہیں پایا ۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم ( علیہ السلام ) کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا ۔ اس نے  صاف   انکار  کر دیا ۔ تو ہم نے کہا اے آدم! یہ تیرا اور تیری  بیوی  کا  دشمن  ہے ( خیال رکھنا ) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو  جنت  سے نکلوا دے کہ تو مصیبت میں پڑ جائے ۔ یہاں تو تجھے یہ  آرام  ہے کہ نہ تو بھوکا ہوتا ہے نہ ننگا ۔ اور نہ تو یہاں  پیاسا  ہوتا ہے نہ  دھوپ  سے  تکلیف  اٹھاتا ہے ۔ لیکن شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا کہنے لگا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا  درخت  اور بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو ۔ چناچہ ان دونوں نے اس  درخت  سے کچھ کھا لیا پس ان کے ستر کھل گئے اور بہشت کے پتے اپنے اوپر ٹانکنے لگے ۔ آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب کی  نافرمانی  کی پس بہک گیا ۔ پھر اس کے رب نے نوازا ، اس کی توبہ  قبول  کی اور اس کی رہنمائی کی ۔ فرمایا تم دونوں یہاں سے اتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے  دشمن  ہو ، اب تمہارے  پاس  جب کبھی میری طرف سے  ہدایت  پہنچے تو جومیری  ہدایت  کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ  تکلیف  میں پڑے گا ۔ اور ( ہاں ) جو میری  یاد  سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی  تنگی  میں رہے گی ، اور ہم اسے بروز  قیامت   اندھا  کرکے اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے  اندھا  بنا کر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا ۔ ۔ (  جواب  ملے گا کہ ) اسی طرح ہونا چاہیے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے ۔

                                                                                                                                                     (طہ:115-126)

:ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا

قَالَ اہۡبِطُوۡا بَعۡضُکُمۡ  لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَ لَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ  وَّ مَتَاعٌ اِلٰی  حِیۡنٍ ﴿۲۴

حق تعالٰی نے فرمایا کہ  نیچے  ایسی  حالت  میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے  دشمن  ہو گے اور تمہارے واسطے  زمین  میں رہنے کی  جگہ  ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک  وقت  تک ۔

                                                                                                                                                     (الاعراف:24)

یہ اشاعت حضرت آدم علیہ السلام ،حوا علیہ السلام اور ابلیس کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ایک قول کے مطابق سانپ بھی اس میں شامل تھا انہیں حکم دے دیا گیا کہ جنت سے نکل جائیں جبکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن مخالف رہیں گے اس واقعے میں سانپ کے ذکر کی تائید میں وہ حدیث پیش کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سے ان سانپوں  سے ہماری جنگ شروع ہوئی ہے ہم نے ان سے کبھی صلح نہیں کی اور جس نے ڈر کی وجہ سے کوئی سانپ چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن پیدا کیا گیا اور اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا اور اسی دن نکالا گیا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آدم علیہ السلام کو مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان دحنا نامی مقام پر اتارا گیا۔

حضرت حسن بصری رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں آدم علیہ السلام کو ہند میں اتارا گیا حوا علیہ السلام کو جدہ میں ابلیس کو بصرہ سے چند میل دور دستمیان نامی جگہ میں اور سانپ کو اصفہان میں اتارا گیا جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں آدم علیہ السلام کو صفا پہاڑی اور حوا علیہ السلام کو مروہ پہاڑی پر اتارا گیا۔

:توبہ اور استغفار

اللہ تعالی نے جب انہیں جنت اور راحت و سکون والی جگہ سے نکال کر مشقت اور محنت والی زندگی مہیا کی تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوئے جس کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ  اَنۡفُسَنَا ٜ وَ  اِنۡ  لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۳

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا  نقصان  کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم  نقصان  پانے والوں میں سے ہو جائیں گے

                                                                                                                                                     (الاعراف:23)

آدم علیہ السلام نے یہ کلمات اللہ تعالی سے ہی سیکھے تھے جیسا کہ قران مجید میں اس کی وضاحت ہے۔

فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ  التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۳۷

( حضرت ) آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالٰی نے ان کی توبہ  قبول  فرمائی بیشک وہی توبہ  قبول  کرنے والا اور رحم کر نے والا ہے ۔

                                                                                                                                                     (البقرة:37)

ان الفاظ میں اپنی غلطی کا اعتراف ہے اللہ کی طرف توجہ ہے اس کے سامنے عز و نیاز اور تزلل کا اظہار ہے اس مشکل گھڑی میں اللہ تعالی کی طرف محتاجی کا اقرار ہے آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے جس شخص کو یہ راز سمجھ میں آگیا اس کی دنیا بھی سنبھل جائے گی اور آخرت بھی۔

:حضرت آدم کی دنیا میں زندگی

:کسان و ہنر

حضرت عمر ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا جب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتارا تو آپ کو ہر چیز بنانا سکھایا اور جنت کے کچھ پھل عطا فرمائے تمہارے یہ زمینی پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں فرق یہ ہے کہ ان میں تبدیلیاں آتی ہے خراب ہو جاتے ہیں اور ان میں تبدیلی نہیں آتی حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آدمی نے زمین پر جع سب سے پہلے کھانا کھایا وہ یہ تھا کہ جبرائیل علیہ السلام ان کے پاس گندم کےسات  دانے لائے آدم علیہ السلام نے فرمایا یہ کیا ہے جبریل علیہ السلام نے فرمایا یہ اسی درخت کا پھل ہے جس سے آپ کو منع کیا گیا تھا اور آپ نے کھا لیا تھا انہوں نے فرمایا میں اس کا کیا کروں فرمایا اسے زمین میں دبا  دیجیے انہوں نے بو دیا ان میں سے ہر ایک دانے کا وزن موجودہ دور کے ایک لاکھ دانوں سے زیادہ تھا وہ اگ ائے وقت انے پر انہیں کاٹا گیابھس  سے دانے الگ کیے گئے پھر انہیں پیسا اور گوندا پھر اس آٹے کی روٹی پکاکر کھائی اس طرح انہیں بہت محنت اور مشقت کے بعد کھانا ملا اس آیت مبارکہ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔

فَقُلۡنَا یٰۤـاٰدَمُ  اِنَّ  ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَ لِزَوۡجِکَ فَلَا یُخۡرِجَنَّکُمَا مِنَ الۡجَنَّۃِ فَتَشۡقٰی  ﴿۱۱۷

تو ہم نے کہا اے آدم! یہ تیرا اور تیری  بیوی  کا  دشمن  ہے ( خیال رکھنا ) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو  جنت  سے نکلوا دے کہ تو مصیبت میں پڑ جائے ۔

                                                                                                                                                     (طه:117)

:حضرت آدم کی اولاد

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حوا کو کثیر اولاد عطا فرمائی۔

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ  رَقِیۡبًا ﴿۱

اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو ، جس نے تمہیں ایک جان سے  پیدا  کیا اسی سے اس کی  بیوی  کو  پیدا  کر کے ان دونوں سے بہت سے  مرد  اور عورتیں پھیلا دیں ، اس اللہ سے ڈرو جس کے  نام  پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالٰی تم پر  نگہبان  ہے ۔

                                                                                                                                                     (النساء:1)

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی   ۚ ۛ  شَہِدۡنَا   ۚ ۛ  اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ  الۡقِیٰمَۃِ  اِنَّا کُنَّا عَنۡ  ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ ﴿۱۷۲

اور جب آپ کے رب نے  آدم کی  پشت  سے ان کی  اولاد  کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق  اقرار  لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے  جواب  دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں ۔ تاکہ تم لوگ  قیامت  کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے  خبر  تھے ۔

حذرت عمر  بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے مذکورہ آیت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا میری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا پھر ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا اور ان کی اولاد نکالی اور فرمایا میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ جنتیوں والے عمل کریں گے پھر ان کی پشت پر دوبارہ ہاتھ پھیرا اور مزید اولاد فرمائی اور ارشاد فرمایا میں نے انہیں جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ جہنمیوں والے عمل کریں گے  ایک آدمی نے کہا: رسول تب عمل کس  کےلیے ہے؟ اللہ کے رسول نے فرمایا جب اللہ تعالی کسی بندے کو جنت کے لیے پیدا فرماتا ہے تو اسے جنتی والے عمل کی توفیق دیتا ہے اور وہ شخص ان کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جاتا ہے، اللہ تعالی جب کسی بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اسے جہنمیوں والے اعمال میں مشغول کر دیتا ہے اور وہ شخص ان کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔

جمہور علماء یہ رائے رکھتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کی اولاد سے وعدہ لیا گیا تھا انہوں نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن ایک جہنمی سے کہا جائے گا کہ اگر تیرے پاس پوری دنیا کا مال و دولت ہو تو کیا تو فدیہ کے طور پر وہ سب دیے دے  گا ؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالی فرمائے گا کہ میں نے تجھ سے اس سے آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا جب تم آدم علیہ السلام کی پشت میں تھا اس وقت میں نے تجھ سے ایک وعدہ لیا تھا کہ تو میرے ساتھ شریک نہیں کرے گا لیکن تو نے پھر بھی شرک کرنے پر ہی اصرار کیا،اوپر ذکر کی گئی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اللہ تعالی نے اس دن ان سب کو جمع کیا جو آدم علیہ السلام کی پشت سے قیامت تک پیدا ہونے والے تھے ان کو پیدا کر کے اور ان کی صورتیں بنا کر انہیں بولنے کی طاقت دی وہ بولنے لگے تو ان سے عہد و پیمان لیا اور انہیں خود ان پر گواہ ٹھہرایا فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں انہوں نے کہا ضرور ہے اللہ تعالی نے فرمایا میں تم پر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو گواہ بناتا ہوں اور تم پر تمہارے باپ آدم کو گواہ بناتا ہوں قیامت کے دن یہ نہ کہنا ہمیں اس کا علم نہ تھا یاد رکھو میرے سوا کوئی معبود نہیں اور میرے سوا کوئی مالک نہیں میرے ساتھ شرک نہ کرنا میں تمہارے پاس رسول بھیجوں گا جو تمہیں میرا عہد و پیمان یاد دلاکر تمہیں اس کی خلاف ورزی کی سزا سے ڈرائیں گے میں تم پر اپنی کتاب نازل کروں گا انہوں نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہمارا رب اور ہمارا معبود ہے تیرے سوا ہمارا کوئی رب یا معبود نہیں چنانچہ اس دن انہوں نے تعمیل  احکام کا اقرار کیا

اللہ تعالی نے ان کے باپ آدم علیہ السلام کو بلند کیا اس نے ان سب کو دیکھا تو ان میں امیر غریب خوبصورت اور بدصورت افراد نظر آئے انہوں نے عرض کی یا رب کاش تو ان سب کو برابر کر دیتا اللہ تعالی نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ میرا شکر کیا جائے۔اسی دوسرے میثاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا

 

فَاَقِمۡ  وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ  الَّتِیۡ فَطَرَ  النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ  لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ  اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿٭ۙ۳۰

پس آپ یک سو ہو کر اپنا  منہ   دین  کی طرف متوجہ کر دیں اللہ تعالٰی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو  پیدا  کیا ہے ، اللہ تعالٰی کے بنائے کو بدلنا نہیں یہی  سیدھا   دین  ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔

                                                                                                                                                     (الروم:30)

:اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا                                                                        

ہٰذَا نَذِیۡرٌ  مِّنَ  النُّذُرِ  الۡاُوۡلٰی ﴿۵۶

یہ ( نبی ) ڈرانے والے ہیں  پہلے  ڈرانے والوں میں سے ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو آپ کی پشت پر ہاتھ پھیرا تب قیامت تک پیدا ہونے والی ہر جان آپ کی پشت سے ظاہر ہو گئی اللہ نے ہر ایک کی آنکھوں کے درمیان نور کی ایک چمک رکھ دی پھر انہیں آدم علیہ السلام کو دکھایا آدم علیہ السلام نے کہا یارب یہ کون ہیں اللہ تعالی نے فرمایا یہ تیری اولاد ہے آپ کو ان میں ایک آدمی نظر آیا جس کی پیشانی کی چمک آپ کو بہت اچھی لگی فرمایا یارب یہ کون ہے اللہ تعالی نے فرمایا یہ تیری اولاد میں آخری زمانے کی قوموں میں سے ایک آدمی ہے جس کا نام داؤد علیہ السلام ہوگا فرمایا یا رب تو نے اس کی عمر کتنی مقرر کی ہے اللہ تعالی نے فرمایا 60 سال آدم علیہ السلام نے فرمایا یا رب اسے میری عمر میں سے 40 سال عطا فرما دے تو آدم علیہ السلام کی عمر مکمل ہوئی تو موت کا فرشتہ آگیا انہوں نے فرمایا کیا میری عمر میں سے 40 سال باقی نہیں اس نے کہا کیا وہ آپ نے اپنے بیٹے داؤد علیہ السلام کو نہیں دے دیے آپ علیہ السلام نے انکار کیا تو آپ کی اولاد میں بھی انکار کی عادت رہی آدم علیہ السلام بھول گئے آپ کی اولاد بھی بھولنے والی ہوئی آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی آپ کی اولاد بھی غلطیاں کرنے والی ہوئی۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ ہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نے اولاد آدم سے نعمان یعنی عرفات کے مقام پر عہد لیا اللہ تعالی نے ان کی تمام اولاد کو جو اس نے پیدا کی ہے ان کی پشت سے نکالا انہیں اپنے سامنے چونٹیوں کی طرح بکھیر دیا پھر ان سے براہ راست کلام کرتے ہوئے فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں انہوں نے کہا یقینا ہے ہم گواہی دیتے ہیں اللہ تعالی نے فرمایا مبادا تم قیامت کے دن کہو ہمیں تو اس کا علم ہی نہ تھا یا کہو ہمارے باپ دادا نے شرک کیا تھا اور ہم تو انہی کی اولاد تھے اس لیے ان کی راہ پر چل پڑے کیا تو ہمیں جھوٹے لوگوں کے اعمال کی وجہ سے تباہ کر دے گا۔

کیا آدم و حوا کے ہاں جنت میں اولاد ہوئی تھی یا نہیں؟

اس میں اختلاف ہے ایک قول یہ ہے کہ ان کی سب اولاد زمین میں ہی پیدا ہوئی تھی دوسرے قول کے مطابق ان کے کچھ بچے جنت میں بھی پیدا ہوئے تھے جن میں قابیل اور ان کی بہن بھی شامل تھے تاریخ طبری میں ہے کہ ان کے ہاں ہر بار ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتے تھے اور انہیں یہ حکم تھا کہ ہر لڑکے کی شادی دوسرے لڑکے کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی سے کریں اور دوسرے کی شادی پہلے کے ساتھ پیدا ہونے  والی لڑکی سے کریں یعنی اس لڑکی سے شادی کرنا جائز نہ تھا جو لڑکے کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔

:قابیل اور ہابیل کا واقعہ

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ  نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ  بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ  اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ  اللّٰہُ مِنَ  الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۲۷

لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقۡتُلَنِیۡ مَاۤ   اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقۡتُلَکَ ۚ اِنِّیۡۤ  اَخَافُ اللّٰہَ  رَبَّ  الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۸

اِنِّیۡۤ  اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثۡمِیۡ وَ اِثۡمِکَ فَتَکُوۡنَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ ۚ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۲۹

فَطَوَّعَتۡ  لَہٗ نَفۡسُہٗ  قَتۡلَ اَخِیۡہِ فَقَتَلَہٗ  فَاَصۡبَحَ  مِنَ  الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۳۰

فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّبۡحَثُ فِی الۡاَرۡضِ لِیُرِیَہٗ کَیۡفَ یُوَارِیۡ سَوۡءَۃَ اَخِیۡہِ ؕ قَالَ یٰوَیۡلَتٰۤی اَعَجَزۡتُ اَنۡ  اَکُوۡنَ مِثۡلَ  ہٰذَا الۡغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوۡءَۃَ اَخِیۡ ۚ فَاَصۡبَحَ  مِنَ  النّٰدِمِیۡنَ ﴿۳۱

                                                             

:ترجمہ

آدم ( علیہ السلام ) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو ان دونوں نے ایک نذرانہ  پیش  کیا ، ان میں سے ایک کی نذر تو  قبول  ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا ، اس نے کہا اللہ تعالٰی تقویٰ والوں کا ہی عمل  قبول  کرتا ہے ۔ گو تو میرے  قتل  کے لئے دست درازی کرے لیکن میں تیرے  قتل  کی طرف ہرگز اپنے  ہاتھ  نہ بڑھاؤں گا ، میں تو اللہ تعالٰی پروردگار  عالم  سے خوف کھاتا ہوں ۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا  گناہ  اور اپنے  گناہ   سر  پر رکھ لے اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے ظالموں کا یہی  بدلہ  ہے ۔ پس اسے اس کے نفس نے اپنے  بھائی  کے  قتل  پر امادہ کر دیا اسنے اسے  قتل  کر ڈالا جس سے  نقصان  پانے والوں میں سے ہو گیا۔ پھر اللہ تعالٰی نے ایک کوے کو بھیجا جو  زمین  کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے  بھائی  کی لاش کو چھپا دے ، وہ کہنے لگا ہائے  افسوس  !مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اس کوے کی طرح اپنے  بھائی  کی لاش کو دفنا دیتا پھر وہ( بڑا ہی ) پشیمان اور شرمندہ ہو گیا ۔

                                                                                                                                                     (المائدة:28-31)

متعدد صحابہ کرام سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام ہر لڑکے کی شادی کسی دوسرے لڑکے کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی  سے کرتے تھے ہابیل نے قابیل کی بہن سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا اور قابیل کی بہن زیادہ خوش شکل تھی چنانچہ قابیل نے چاہا کہ اس کی شادی ہابیل کی بجائے خود اس سے ہو جائے آدم علیہ السلام نے اسے حکم دیا کہ ہابیل کو اس سے نکاح کرنے دے اس نے انکار کر دیا تو آدم علیہ السلام نے دونوں کو قربانی کرنے کا حکم دیا ہابیل بھیڑ بکریاں پالتا تھا اس نے ایک موٹا تازہ جانور قربان کیا قابیل نے اپنی کھیتی میں سے نکمی فصل کا ایک گٹھا قربانی کے طور پر پیش کیا آسمان سے آگ اتری اس نے ہابیل کی قربانی کو کھا لیا لیکن قابیل کی قربانی کو چھوڑ دیا اسے غصہ آگیا اس نے کہا میں ضرور تجھے قتل کر دوں گا تاکہ تم میری بہن سے شادی نہ کر سکے ہابیل نے کہا اللہ تعالی پرہیزگاروں سے قربانی قبول کرتا ہے ابو جعفر رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب وہ دونوں قربانی دے رہے تھے تو آدم علیہ السلام بھی موجود تھے انہوں نے دیکھا کہ ہابیل کی قربانی قبول ہو گئی قابیل کی نہیں ہوئی تب قابیل نے آدم علیہ السلام نے کہا اس کی قربانی اس لیے قبول ہوئی ہے کہ آپ نے اس کے حق میں دعا کی تھی اور آپ نے میرے حق میں دعا نہیں کی اس کے بعد اس نے تنہائی میں ہابیل کو دھمکی دی ایک رات ہابیل کو جانور چراتے ہوئے واپس آنے میں دیر ہو گئی آدم علیہ السلام نے اس کے بھائی قابیل کو بھیجا کہ معلوم کرے اسے کیوں دیر ہوئی ہے وہ گیا تو اسے ہابیل مل گیا اس نے کہا تیری قربانی قبول ہو گئی ہے میری نہیں ہوئی اس نے کہا اللہ تعالی اہل تقوی سے قربانی قبول کرتا ہے اس پر قابیل کو غصہ آگیا  اس کے پاس لوہے کی کوئی چیز تھی اس نے وہ مار کر ہابیل کو قتل کر دیا بعض علماء نے فرمایا ہابیل سو رہا تھا قابیل نے ایک بڑا پتھر اس کے سر پر مار کر اس کا سر کچل دیا بعض علماء فرماتے ہیں بلکہ اس نے زور سے اس کا گلا گھونٹا اور درندوں کی طرح اسے دانتوں سے کاٹا جس سے وہ فوت ہو گیا اللہ تعالی نے فرمایا کہ جب قابیل نے ہابیل کو قتل کی دھمکی دی تو ہابیل نے کہا

لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقۡتُلَنِیۡ مَاۤ   اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقۡتُلَکَ ۚ اِنِّیۡۤ  اَخَافُ اللّٰہَ  رَبَّ  الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۸

گو تو میرے  قتل  کے لئے دست درازی کرے لیکن میں تیرے  قتل  کی طرف ہرگز اپنے  ہاتھ  نہ بڑھاؤں گا ، میں تو اللہ تعالٰی پروردگار  عالم  سے خوف کھاتا ہوں ۔

اس سے اس کے اچھے اخلاق خدا خوفی اور خشیت الہی کا اظہار ہوتا ہے اور اس سے اس کا تقوی بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھائی نے جو زیادتی کرنے کا ارادہ کیا تھا اس نے بدلے میں ویسے برائی کرنے سے پرہیز کیا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب دو مسلمان تلواریں لے کر لڑنے کے لیے ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں پھر جنگ کرتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوتے ہیں صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ تو قاتل ہے اس لیے سزا کا مستحق ہے مقتول کا کیا معاملہ ہے کہ اس مظلوم کو بھی سزا ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی بھی شدید خواہش تھی کہ اپنے ساتھیوں کو قتل کر دے ہابیل نے مزید کہا:

اِنِّیۡۤ  اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثۡمِیۡ وَ اِثۡمِکَ فَتَکُوۡنَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ ۚ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۲۹

میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا  گناہ  اور اپنے  گناہ   سر  پر رکھ لے اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے ظالموں کا یہی  بدلہ  ہے ۔

یعنی میں تجھ سے لڑائی نہیں کرنا چاہتا حالانکہ میں تجھ سے زیادہ قوی اور مضبوط ہوں باوجود یہ کہ تو نے ایک غلط کام کا پختہ ارادہ کر لیا ہے میں چاہتا ہوں کہ تو نے پہلے جو گناہ کیے ہوئے ہیں ان کے ساتھ میرے قتل کا گناہ بھی تیرے سر ہو حضرت مجاہد ابن جریر اور دیگر علماء رحمت اللہ علیہ نے اس کی یہی تشریح کی ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا قسم ہے اللہ کی ان دونوں میں سے مقتول زیادہ طاقتور تھا لیکن اس نے دوسرے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تاکہ گناہ کا مرتکب نہ ہو جائے۔

اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف بغاوت کی گئی تو اس فتنہ کے ایام میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ایک فتنہ برپا ہوگا اس کے دوران میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اللہ کے رسول یہ فرمائیے کہ اگر کوئی مجھے قتل کرنے کے لیے میرے گھر میں گھس آئے تو کیا کروں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم کے بیٹے ہابیل کی طرح بن جانا۔

:قابیل کو سزا

حضرت مجاہد رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں جس دن قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کیا اسی دن اسے سزا مل گئی چنانچہ اس کی پنڈلی اس کی ران سے چپک گئی اس کو یہ سزا بھی دی گئی کہ سورج جس طرف ہوتاتھا قابیل کا چہرہ اسی طرف رہتا اس طرح اسے دوسروں کے لیے عبرت بنا دیا گیا اور اسے جلدی سزا مل گئی کیونکہ اس نے گناہ کا ارتقاب کیا تھا سرکشی کی تھی۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ظلم اور قطع رحمی سے بھر کر کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالی اس کی سزا دنیا میں بھی دے اور آخرت کا عذاب بھی اس کے لیے محفوظ رکھے۔

اہل کتاب کے پاس جو کتاب ہے وہ جسے وہ تورات قرار دیتے ہیں اس میں لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی سزا موخر کر کے اسے مہلت دی اور وہ عدن کے مشرق میں “نود” کے علاقے میں جا بسا وہ اسے “قنین” کہتے تھے اس کا ایک بیٹا “خنوخ” ہوا اور خنوخ سے عندر عندر سے محاویل محاویل سے متوشیل اور متوشیل سے لامک پیدا ہوا۔

لامک نے دو عورتوں سے شادی کی ایک عدا اور دوسری کا نام صلا تھا ۔ عدا کے ہاں ایک بیٹا ابل پیدا ہوا سب سے پہلے اس نے خیموں میں رہائش اختیار کی مال جمع کیا اس کے ہاں نوبل بھی پیدا ہوا اس نے سب سے پہلے بین اور بانسری بجائی صلا کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا اس کا نام توبلقین تھا سب سے پہلے اس نے تانبہ اور لوہے کی چیزیں بنائی اور اس کے ہاں ایک بیٹی ہوئی جس کا نام نعمی تھا۔اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ آدم علیہ السلام اپنی زوجہ محترمہ کے پاس گئے تو ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا حوا علیہ السلام نے اس کا نام شیث رکھا اور فرمایا اللہ نے مجھے ہابیل کا نعمالبدل عطا فرما دیا ہے جسے قابیل نے قتل کر دیا تھا شیث کا ایک بیٹا انوش تھا اہل کتاب کہتے ہیں جب شیث کی ولادت ہوئی تو آدم علیہ السلام کی عمر ایک سو تیس سال تھی آپ اس کے بعد 800 سال زندہ رہے جب شیث کے ہاں انوش کی ولادت ہوئی تو ان کی عمر 165 سال تھی وہ اس کے بعد 807 سال زندہ رہے اور ان کے ہاں انوش کے علاوہ اور بیٹے اور بیٹیاں بھی ہوئیں،انوش کی عمر 90 سال تھی جب اس کا بیٹا قینان پیدا ہوا وہ اس کے بعد 815 سال زندہ رہا اور اس کے ہاں بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئی جب قینان ستر سال کا تھا تو اس کا بیٹا محلاییل پیدا ہوا وہ اس کے بعد 084 سال زندہ رہا اور اس کے ہاں بیٹے اور بیٹیاں ہوئیں جب محلا ییل کی عمر 65 سال کی ہوئی تو اس کے ہاں یرد پیدا ہوا وہ اس کے بعد 800 سال زندہ رہا اور اس کے بیٹے اور بیٹیاں ہوئی جب یرد کی عمر 162 سال ہوئی تو ان کا بیٹا خنوخ پیدا ہوا وہ اس کے بعد 800 سال زندہ رہا اس کے بیٹے اور بیٹیاں ہوئی جب خنوخ 65 سال کا ہوا تو اس کا بیٹا  متوشلخ پیدا ہوا وہ اس کے بعد 8 سو سال زندہ رہا اور اس کے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں جب متوشلخ187سال کا ہوا تو اس کے ہاں لامک پیدا ہوا اس کے بعد 782 سال زندہ تھا اور اس کے بیٹے اور بیٹیاں ہوئی لامک182 سال کا ہوا تھا اس کے ہاں نوح علیہ السلام کی ولادت ہوئی نوح علیہ السلام کی ولادت کے بعد لامک 595 سال مزید زندہ رہا اور اس کے بیٹے اور بیٹیاں ہوئی جب نوح علیہ السلام کی عمر 5 سو سال ہوئی تو ان کے بیٹے حام سام اور یافث پیدا ہوئے یہ تفصیلات بائبل کے بیانات کا خلاصہ ہے ان معلومات کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ آسمان سے نازل کردہ وحی میں سے بغیر تبدیلی کے محفوظ ہیں اکثر علماء کرام نے ان پر تنقید کی ہے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے بعض علماء نے تفسیر کے طور پر یہ تفصیلات اصل کتاب میں اپنی طرف سے شامل کردی ہیں ان میں بہت سی غلطیاں بھی ہیں۔

امام ابن جریر رحمت اللہ علیہ نے اپنی تاریخ کی کتاب میں کسی کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کے ہاں دو دو کر کے 40 بچے پیدا ہوئے ایک قول کے مطابق 120 جوڑے پیدا ہوئے ہر بار ایک لڑکے اور ایک لڑکی کی ولادت ہوتی تھی اس کے بعد انسانوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا گیا اور وہ زمین میں بکھر گئے اور دور دور تک آباد ہو گئے۔

البدایہ والنہایہ میں امام ابن کثیر ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب جنت پیدا فرمائی تو فرشتوں نے کہا ہمارے مالک یہ ہمارے لیے خاص کر دے کیونکہ تونے بنی آدم کے لیے دنیا پیدا کی ہے وہ اس میں کھاتے پیتے ہیں اللہ تعالی نے فرمایا میری عزت و جلال کی قسم یہ نہیں ہو سکتا کہ جسے میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اس کی نیک اولاد کو ان فرشتوں کے برابر کر دوں جنہیں میں نے کن کہا اور وہ وجود میں آگئے۔

آدم کی وفات اور بیٹے کو وصیت:

شیث کا مطلب ہے اللہ کا دیا ہوا تحفہ آدم علیہ السلام نے ان کا یہ نام اس لیے رکھا تھا کہ ہابیل کے قتل ہو جانے کے بعد اللہ نے انہیں شیث عطا فرمایا محمد بن اسحاق رحمت اللہ علیہ نے فرمایا جب آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے اپنے بیٹے شیث کے حق میں وصیت کی انہیں رات اور دن کے اوقات اور ان اوقات  میں ادا کی جانے والی عبادات کی تعلیم دی اور انہیں بتایا کہ ایک طوفان آنے والا ہے کہا جاتا ہے کہ آج کل جتنے انسان موجود ہیں ان کا نسب شیث علیہ السلام تک پہنچتا ہے آدم علیہ السلام کے دوسرے بیٹوں کی اولاد ختم ہو چکی ہے۔

:وفات

جس دن آدم علیہ السلام کی وفات ہوئی وہ دن جمعہ کا دن تھا فرشتے اللہ کے پاس سے جنت کی خوشبو اور جنت کا کفن لے کر آئے اور ان کے بیٹے اور خلیفہ شیث علیہ السلام سے تعزیت کی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا جب آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا انہوں نے اپنے بیٹوں سے فرمایا بیٹوں میرا جنت کے پھل کھانے کا جی چاہتا ہے ۔ وہ تلاش کے لیے  نکل کھڑے ہوئے انہیں سامنے سے فرشتے آتے ملے جن کے پاس آدم علیہ السلام کا کفن اورخوشبو تھی اور ان کے پاس کلہاڑے کسیاں اور ٹوکریاں بھی تھیں انہوں نے کہا آدم کے بیٹو! تمہیں کس چیز کی تلاش ہے یا کہا تم کیا چاہتے ہو اور کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے والد صاحب بیمار ہیں اور جنت کے میووں کی خواہش رکھتے ہیں فرشتے نے کہا واپس چلے جاؤ تمہارے والد تو فوت ہونے والے ہیں فرشتے جب آدم علیہ السلام کی روح قبض کرنے کے لیے آئے تو حوا علیہ السلام نے انہیں دیکھ کر پہچان لیا وہ آدم علیہ السلام سے چمٹ گئی آدم علیہ السلام نے فرمایا مجھ سے الگ ہو جاؤ پہلے بھی مجھے تمہارے ذریعے سے ہی مصیبت پہنچی تھی مجھے میرے رب کے فرشتوں کے سامنے رہنے دو فرشتوں نے ان کی روح قبض کی غسل دیا کفن پہنایا خوشبو لگائی آپ کی قبر کھودی اور لحد تیار کی پھر انہوں نے آدم علیہ السلام کی نماز جنازہ ادا کی پھر انہیں قبر میں رکھ کر اوپر سے مٹی ڈال دی پھر انہوں نے کہا آدم کے بیٹو تمہارے لیے یہی طریقہ ہے۔

:آدم علیہ السلام کی قبر                                                                                     

حضرت آدم علیہ السلام کہاں دفن ہوئے اس میں اختلاف ہے مشہور ہے کہ انہیں ہندوستان کے پاس سری لنکا میں اس پہاڑ کے قریب دفن کیا گیا جہاں انہیں جنت سے اتارا گیا تھا  ایک  قول یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں جبل ابی قبیس پر دفن کیا گیا یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان کے موقع پر ان کی اور حضرت حوا کی میتوں کو ایک طابوت میں ڈال کر کشتی میں رکھ لیا تھا ۔پھر طوفان ختم ہونے کے بعد انہیں بیت المقدس میں دفن کر دیا۔

حضرت آدم علیہ السلام کی عمر کے بارے میں بھی اختلاف ہے حضرت ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سے مرفوع حدیث ہے کہ لوح محفوظ میں ان کی عمر ہزار سال لکھی ہوئی تھی اس کے مقابلے میں تورات کے اس بیان کو اختیار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ 930 سال زندہ رہے اہل کتاب کا یہ بیان ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ اس صحیح بیان کے خلاف ہے جو معصوم نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہم تک قابل اعتماد طریقے سے پہنچا ہے۔ اس قول اور حدیث میں مطابقت بھی پیدا کی جا سکتی ہے تورات کا بیان اگر غلطی اور تبدیلی سے محفوظ رہ گیا ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ آدم علیہ السلام جنت سے زمین پر آنے کے بعد 930 شمسی سال زندہ رہے قمری حساب سے یہ مدت 957 سال بنتی ہے اس میں 43 سال کی وہ مدت شامل کر لی جائے جو انہوں نے زمین پر آنے سے پہلے جنت میں گزاری تھی تو پھر مدت ہزار سال ہو جائے گی۔

حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے شیث علیہ السلام نے ان کے کام رشد و ہدایت اور تبلیغ کی ذمہ داری اٹھائی جب ان کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے انوش کے حق میں وصیت کی چنانچہ انہوں نے یہ ذمہ داری اٹھائی ان کے بعد ان کے بیٹے قینن پھر ان کے بیٹے محلا ییل نے یہ منصب سنبھالا ان کے بارے میں اہل فارس کا کہنا ہے کہ وہ ہفت اقلیم کے بادشاہ تھے۔سب سے پہلے انہوں نے درخت کاٹے شہر بسائے اور بڑے بڑے قلعے تعمیر کیے وہ کہتے ہیں کہ بابل اور سوس یعنی ایران کے شہر انہوں نے تعمیر کیے انہوں نے ابلیس کے لشکروں کو شکست دے کر زمین کے دور دراز علاقوں اور پہاڑوں کے گھاٹیوں میں منتشر کر دیا انہوں نے بہت سے سرکش جن اور بھوت قتل کیا ان کا ایک بہت بڑا تاج تھا۔ وہ لوگوں سے خطاب فرماتے تھے ان کی حکومت 40 سال قائم رہی ان کی وفات پر ان کے بیٹے یرد نے ان کا منصب سنبھالا انہوں نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے خنوخ کے حق میں وصیت کی مشہور قول کے مطابق انہی کو ادریس علیہ السلام کہا جاتا ہے۔

:آدم علیہ السلام کے قصے سے حاصل ہونے والا سبق

آدم علیہ السلام کے  اس قصے سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ غرور  وتکبر کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے ابلیس کا ایک مقام تھا مگر جب وہ فرمان ربانی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کرتا ہے اور غرور تکبر کرتا ہے بہانے بناتا ہے تو اس  جرم کی وجہ سے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مردود قرار دے دیا جاتا ہے اللہ تعالی کی رحمت سے محرومی اور اس کے دائمی عذاب کا حقدار بن جاتا ہے کیونکہ تکبر وہ صفت ہے جو پروردگار عالم کے سوا کسی کو زیبا نہیں۔

آدم علیہ السلام کے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انسان کا ازلی، کھلا اور جانی دشمن ہے اللہ تعالی نے انسان کو عظمت ورفت عطا فرمائی تو یہ حسد کی آگ میں جل اٹھا پھر جب آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے مردود لعنتی اور جہنمی قرار پایا تو اس نے تا قیامت مہلت طلب کر لی تاکہ آدم علیہ السلام کی اولاد کو گمراہ کر کے جہنم رسید کر سکے۔شیطان انسان کو قتل و غارت فسادات نفرت و عداوت بغض و حسد کا حکم دیتا ہے اور اتفاق و اتحاد کو ختم کر کے انتشار پھیلاتا ہے اور اس کے علاوہ شیطان انسان کو بھلائی کے کاموں سے روکتا ہے صدقہ و خیرات احسان نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے سے روکتا ہے انسان کو شیطان بخل ہوس کنجوسی ظلم و ستم کی تعلیم دیتا ہے۔شیطان سے جب حضرت آدم علیہ السلام کا مقام و مرتبہ جو اللہ تعالی نے انہیں عطا کیا تھا وہ برداشت نہ ہوا تو اس نے انہیں بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں شجر ممنوعہ کا پھل اپنی مکاری سے انہیں کھلا دیا۔ اللہ تعالی نے چونکہ اس کو اس کا پھل کھانے سے منع کیا تھا اسی لیے اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں جنت سے نکال کر بھیج دیا۔حضرت آدم علیہ السلام کے اس واقعہ سے یہ بھی سبق حاصل ہوتا ہے کہ اگر انسان سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام سے جب غلطی ہوئی تو وہ اپنی غلطی پر شرمندہ تھے اللہ تعالی نے انہیں توبہ کا طریقہ سکھایا تو انہوں نے اللہ تعالی سے اپنے گناہ کی معافی مانگی اور توبہ کر لی۔جس طرح آدم و حوا علیہ السلام شیطانی مکر کا شکار ہوئے اسی طرح ان کی اولاد بھی شیطان کے فریب میں آ سکتی ہے لہذا انہیں بھی اپنے اس مرض کا علاج اس طرح کرنا چاہیے جس طرح ان کے والدین نے کیا تھا وہ روتے ہوئے اور  گرگراتے ہوئے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ سے فرمایا:

 اے ہمارے رب ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

لہذا اے مسلم !اگر شیطان کا وار تجھ پر کامیاب ہو جائے تو اپنے رب کی طرف نافرمانی کر بیٹھے اور انعام ربانی سے محروم ہو جائے تو تیرے لیے قرب الہی کے حصول ,گناہوں کی بخشش ,رب کی رضا اور انعامات کے حصول کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے تو اپنی زندگی میں کسی بھی وقت اس دروازے سے داخل ہو کر اپنی سیاہ کاریوں کو نیکیوں میں تبدیل کرا سکتا ہے۔